تذلیل وفا کا حق رکھتے ہو
تم دل نہیں پتھر رکھتے ہو
میرے رنج و الم پر ہنستے ہو
اور اپنی حسرتوں کا ماتم بھی کرتے ہو
بنجر زمیں پر کومل کونپلیں نہیں پھوٹتیں
تم گل خزاں میں کھلانے کی باتیں کرتے ہو
جور و جفا سے جو عہد توڑ ڈالا تھا تم نے
اسے نئے عہد و پیماں میں بدلنا چاہتے ہو
جفا کی ہے تو اس پر قائم رہو اے ابن آدم
یوں کش مکش لئے دل میں کیوں پھرتے ہو
ناتا توڑ کر ہم سے غیر کو چن لیا تھا تم نے
دے کر زخم کاری وہ چل دیا تو ہمیں یاد کرتے ہو
ٹوٹے دل جڑتے نہیں اجڑے گھر بستے نہیں
کیوں پھر اس دل ویراں کو آباد کرنا چاہتے ہو
سن اے نادان ہرجائی اب یہ ممکن ہی نہیں
کیا سوچ کر اب تم لوٹ آنا چاہتے ہو