وحشت کا اک نگر ہوا آباد دوستوں
پھر وقت کے سفر میں ہوا برباد دوستوں
وہ آئے اور آ کر واپس چلے گئے
ہم انتظار کی شدت میں رہے بیدار دوستوں
پوچھی ہیں اس نے مجھ سے وفاؤں کی قیمتیں
مانگا ہے کیسا اس نے یہ حساب دوستوں
کتنے ہی صفحے ہم نے اسکے لئے لکھے
ذرا کھول کے دل کے دیکھو کتاب دوستوں
ساری دیواریں چاہتوں کی پانی میں بہہ گئیں
ابلا ہے آنسوؤں کا اک سیلاب دوستوں
کر کے سوال ان سے میں منتظر ہی رہا
اور خاموشی ہی بنی ان کا جواب دوستوں