وحشت کیسی ہےاس شہرسے
آتا ہے خوف اب تو گھر سے
ہم اتنی دور آ بسے ہیں
ممکن نہیں لوٹنا جدھر سے
شب بھر جلتی ہے آتشِ غم
اُڑتی ہے راکھ صبح ادھر سے
ہر گل بے رنگ ہوا چمن میں
ملتی ہے دھوپ ہر شجر سے
مرتے ہیں رات بھر شمع پر
اور ڈرتےہیں بہت سحرسے
دیکھےکوئی خواب کس طرح اب
بہتا ہو خون جب نظر سے
جب نہیں میرے سوا یہاں کوئی
حاصل کیا ہو پھر آہ و زر سے؟
کب تک میں سوچتا رہوں گا؟
گرتے ہیں بال اس فکر سے