جب بھی وفا کی راہ میں ماتھے کے بل گئے
پتھر نما وہ لوگ بھی خوشبو میں ڈھل گئے
وہ بھی خفا خفا سے تھے میں بھی جدا جدا
یوں زندگی کے ہاتھ سے دونوں نکل گئے
چھوڑا نہیں نصیب میں کچھ یاد کے سوا
ہر حال میں ہمارا ہی لے کر وہ دل گئے
بیٹھے بٹھائے ایک دن اشکوں کے روپ میں
کچھ یوں ہوا کہ آنکھ سے سپنے پھسل گئے
کب تک اٹھا کے سر پہ پھروں زندگی کا بوجھ
جس کی لگائی آگ سے ارمان جل گئے
وشمہ تمہارے پیار کی سانسوں کی آنچ سے
ہونٹوں پہ جتنے جام تھے سب ہی پگھل گئے