وحشت مری پہلے سے بھی کچھ اور بڑھی ہے
جس دن سے مرے پاؤں میں زنجیر پڑی ہے
ہم خواب میں کھیلے تھے جو کل زلف سے تیری
اس دن سے نظر مجھ پہ زمانے کی کڑی ہے
تھم تھم کے برستے ہیں یہ رم جھم کی طرح سے
آنکھوں میں یہ آنسو ہیں کہ ساون کی جھڑی ہے
پامال نہ کرنا مرے احساس کی دولت
خوابوں کے نگر کو کبھی سنساں بھری ہے
پندار محبت کو بثانا ہے تو اے دوست
اس ترکِ تعلق کا بھی اعلان پڑی ہے
آگے نہ بڑھیں گے کبھی ہم راہ وفا میں
ہم لوگوں میں نفرت کی جو دیوار کھڑی ہے
وہ مجھ سے گھڑی بھر کے لئے دور ہوئے ہیں
وشمہ یہ گھڑی مجھ پہ قیامت کی گھڑی ہے