وصال میں تیرے , فرقتوں کےغم بھی ہیں
کہ قربتیں بھی , ثانی فراق گزری ہیں
جفاؤں کا کوئی ،شکوہ ہی نہیں تم سے
وفائیں بھی تو تیری ، سَراب کی سی ہیں
مری رَوِش کی کیوں ہیں ، شکایتیں تم کو
مِرے رَویے میں ، عکس اب ، تِرے ہی ہیں
جو گھولا ، تم نے ، زہر زندگی میں ہے
یہ تلخیاں میرے لہجے ، میں اسی کی ہیں
جو سچ کہے زاہد ، لطف تو ہِجر میں ہے
وصال میں اس کے ، رَنجشیں ہی بڑھتی ہیں