اے مظلومو، اے محکومو، اے نادارو، اے ناچارو
اِک راز سنو، آواز سنو، ہوتا ہے کہاں آغاز سنو
خاموش لبوں کی جنبش سے
دنیا کے خدا سب ڈرتے ہیں
سجدوں میں پڑے سر اُٹھ جائیں
مسند پہ جمے رب ڈرتے ہیں
پابندِ سلاسل روحیں جب
بیزارِ جفا ہو جائیں گی
مقتل سے صدائیں آئیں گی
لبیک کہیں گے دِیوانے
!اِک حشر کھڑا ہو جائے گا
مجروح گلوں کی چیخوں سے
گلچیں کا کلیجہ تڑپے گا
ہر منصب جھوٹا لرزے گا
!سفاک خدا گِر جائیں گے
ہر جاں جو فروزاں ہو جائے
ظلمت نہ مٹے، وہ رات نہیں
زنجیر و سلاسل، زنّاری
یہ نسلوں کی سوغات نہیں
آغاز تمہی سے ہونا ہے
غم سہنے والو چُپ کب تک؟
اے ظلم کے مارو لب کھولو”
*”چپ رہنے والو چپ کب تک؟