چاہ اور چاھنے کی جد کر دی
وصل کو حقیقت میں لانے کی حد کر دی
ہجر کی شب میں چراغوں کو بجھا دیتی ہوں
کہ آنسوؤں نے پلکوں پہ آنے کی حد کر دی
مار سے نہیں تیرے شک سے ڈرتی ہوں
باراہاں تجھے یقین دلانے کی حد کر دی
مجھ میں جل رہا ہے اک دیا وفا کا
اس دیئے کو تیرے نام سے بجھانے کی حد کر دی
میں نے سوچ کر نہیں کی محبت جو پارسا بن جاؤں
اپنی دھن میں یہ دنیا بسانے کی حد کر دی
ہاں میں نہیں جانتی کسی کو سوا تیرے
تجھے اپنی معلومات حافظہ میں رکھنے کی حد کر دی