نظم جو آپ سناتے تھے
اور مجھ کو پھول بتاتے تھے
اب مجھے سنائیں نا
مجھ کو پھول بتائیں نا
آپ ہی تو لکھتے تھے
جان ہے میری تم میں
جان کو جلائیں نا
مجھے وہ خط دکھائیں نا
مجھ کو دیکھ کر آپ
بھول جاتے ہیں سب کچھ
مجھ کو دیکھ کر اب آپ
دکھ بھی بھول جائیں نا
آپ اُداس ہوتے ہیں
تو میں بھی رونے لگتی ہوں
مجھ کو تو رولائیں نا
ہنسنا مجھے سکھائیں نا
آپ نے کہا تھا نا
اب کی بار ساون میں
شآل میں تمہیں دوں گا
مجھ کو وہ دلائیں نا
بارشوں کے موسم میں
شآل وہ اوڑھائیں نا
فیض جی میں کہتی ہوں
آپ بس وعدہ کرتے ہیں
اپنی ان باتوں کو
سچ بھی کر دکھائیں نا
مجھ کو نظم سنائیں نا
اور وہ خط دکھائیں نا
شآل بھی دلائیں نا
وعدہ تو نبھائیں نا .