جو باتیں بے وفا لوگوں سے آسانی سے کہہ دی ہیں
محبت کا تماشا بن کے نادانی میں کہہ دی ہیں
یہی وہ شب کا قصہ ہے جو لوگوں سے چھپانا تھا
جو حرفِ خامشی سمجھے اسے جا کر سنانا تھا
خمارِ غم سے اپنے چُور ہو کر یا بھٹکنا تھا
سراشکِ تیرگی سورج کے آگے رکھ دیے میں نے
وہ چاکِ گل جو تارِ برق لے کر بھی سیے میں نے
پشیمانی کے جتنے کام تھے سارے کیے میں نے