وفا کی بات کرو محبت کا پرچار نہیں ساقی
تیری باتوں پہ مجھے زرا اعتبار نہیں ساقی
اِسے تیری اسیری کہوں یا کہ دلگیری کہوں
تو نے ستایا ہے کئی بار مجھے اکبار نہیں ساقی
آج اتنی مجھے پِلاؤ کہ نا یاد رہے کچھ بھی
دل ِبرباد کا یہاں کوئی بھی طلبگار نہیں ساقی
اپنوں کی بےحسی نے اُسے زنجیر پا کیا ہوگا
یہ بات نہیں کہ اُسے مجھ سے پیار نہیں ساقی
جس سے بھی دل کا سودا کیا اُسنے ہی دھوکا دیا
لوگ تو بہت ملتے ہیں مگر وفادار نہیں ساقی