وفا کے بدلے ، وفا ہی لوٹائیں گے
وعدہ کرکے ، پھر اسے نبھائیں گے
خودی کا اپنی رکھیں گے خیال ہر پل
ہر اک بات پر سر کو نہ جھکائیں گے
پیار بھری نگاہوں سے ذرا دیکھو تو سہی
ترے لئے پھر خونِ جگر بہائیں گے
ملیں گی ساری دنیا میں راحتیں سب کو
شمع محبت کی جب ہر سُو جلائیں گے
پگھل ہی جائے گا دل اُس کاجب ہم
سامنے اُس کے آنسو خُوں کے بہائیں گے
درد، دل میں اپنے محسوس کرے گا وہ
داستانِ غم جب ہم اپنی سنائیں گے
دل مرا جھوم جائے گا خوشی سے
جب وہ مجھے پاس اپنے بلائیں گے
غم کے مارے ہوئے، لوگوں کے ستائے ہوئے ہیں
اور کیا ہم کو ، اب وہ ستائیں گے
ہوش اپنا سب وہ گنوا دیں گے
نظر سے جواُن کی نظریں ملائیں گے
دو قدم وہ بڑھے گا، فرمانِ الہی ہے
اُس کی طرف کاشف، اک قدم جو بڑھائیں گے