وقت مجھے گزار رہا ہے
یا میں وقت کو گزار رہی ہوں
میں تمہیں کیسے سمجھاو کہ
میں خود کو سمجھا رہی ہوں
کب آئی تھی بہاریں زندگی میں
دو چار دن کو میں زندگی بولا رہی ہوں
تیرے ہاتھوں جو ٹوٹا وہ دل تھا میرا
مگر زمانے کو اک آنئیہ بتا رہی ہوں
آندھی کی دھول نے میرا بھرم رکھ لیا
میں اشکوں کا سبیب ُاڑتی دھول بتا رہی ہوں
اگر شاخ سے ٹوٹا پتہ تو در بے در ہو گا
میں ہاتھ جوڑ کر ہواوں کو منا رہی ہوں
سنو ! زرہ انسانیت کی لاج رکھ لینا لکی
میں آنکھیں بند کر کے تمہارے ساتھ جا رہی ہوں
تنہائی میں بھی کتنی تنہا ہوں میں
کہ دھوپ میں بھی دیے جلا رہی ہوں
پھر نہ کہنا راہ میں لا کر چھوڑ دیا
تم نے آئے تو میں موت کو گلے لگا رہی ہوں