وقت کا جھونکا جو سب پتے اڑا کر لے گیا
Poet: عرش صدیقی By: Faizan, Mumbaiوقت کا جھونکا جو سب پتے اڑا کر لے گیا 
 کیوں نہ مجھ کو بھی ترے در سے اٹھا کر لے گیا 
 
 رات اپنے چاہنے والوں پہ تھا وہ مہرباں 
 میں نہ جاتا تھا مگر وہ مجھ کو آ کر لے گیا 
 
 ایک سیل بے اماں جو عاصیوں کو تھا سزا 
 نیک لوگوں کے گھروں کو بھی بہا کر لے گیا 
 
 میں نے دروازہ نہ رکھا تھا کہ ڈرتا تھا مگر 
 گھر کا سرمایہ وہ دیواریں گرا کر لے گیا 
 
 وہ عیادت کو تو آیا تھا مگر جاتے ہوئے 
 اپنی تصویریں بھی کمرے سے اٹھا کر لے گیا 
 
 میں جسے برسوں کی چاہت سے نہ حاصل کر سکا 
 ایک ہم سایہ اسے کل ورغلا کر لے گیا 
 
 سج رہی تھی جنس جو بازار میں اک عمر سے 
 کل اسے اک شخص پردوں میں چھپا کر لے گیا 
 
 میں کھڑا فٹ پاتھ پر کرتا رہا رکشا تلاش 
 میرا دشمن اس کو موٹر میں بٹھا کر لے گیا 
 
 سو رہا ہوں میں لیے خالی لفافہ ہاتھ میں 
 اس میں جو مضموں تھا وہ قاصد چرا کر لے گیا 
 
 رقص کے وقفے میں جب کرنے کو تھا میں عرض شوق 
 کوئی اس کو میرے پہلو سے اٹھا کر لے گیا 
 
 اے عذاب دوستی مجھ کو بتا میرے سوا 
 کون تھا جو تجھ کو سینے سے لگا کر لے گیا 
 
 مہرباں کیسے کہوں میں عرشؔ اس بے درد کو 
 نور آنکھوں کا جو اک جلوہ دکھا کر لے گیا






