وقت کا پنچھی اُڑتا جائے
اُڑتا پنچھی ہاتھ نہ آئے
سناٹے سے اِک صدا سی ابھرے
لفظ کوئی سن نہ پائے
زخمی زخمی جسم و جاں ہیں
اُن پہ تیر و سناں کے پھائے
زندگی مجھ سے دور ہوئی ہے
موت بھی میرے پاس نہ آئے
برستا لہو ٹپکتا لہو
صحراؤں میں پھول اُگائے
لالہ کی ان کلیوں کو
چھوتے ہوئے دل گھبراتا ہے
وقت کے اڑتے پنچھی نے
اُس صحرا میں جا بھٹکایا ہے
جس صحرا میں
سکھ کا سراب ہاتھ نہ آئے
وقت کا پنچھی اڑتا جائے