وقت کی دہلیز پہ
جانے کتنے چاند گزرے
بند در کی کھڑکی سے
سیاہ بالوں میں چاندنی چمکے
وقت کی دہلیزپہ
ڈھلتی عمر میں کچے سپنے
پکّی حقیقت میں ہیں بدلے
کچے سپنے،پکی حقیقت
جانے کیوں رہتے ہیں الجھے
وقت کی دہلیز پہ
امیدوں کے روشن چہرے
جلتے بجھتے بجھ سے گئے ہیں
خالی جیبیں ہیں پھر بھی
قیمت پوچھتے رہتے ہیں
وقت کی دہلیز پہ
کم دِکھتی آنکھوں سے
گرتے اٹھتے قدموں سے
بند در کی کھڑکی سے
ہر بکنے والے کو
دیکھتے ہی رہتے ہیں
وقت کی دہلیز پہ
جانے کتنی بیٹیوں والے
کچی نیند سوتے سوتے
وقت سے پہلے
ابدی نیند سو جاتے ہیں
وقت کی دہلیز پہ