وقت کے گھوڑے کو کُمیت نہیں ملتی
میری گمنام زندگی کو تمہید نہیں ملتی
یہ دل کے بشاش بھی کمال کرتے ہیں
کہ مجھے سونے کے لئے نیند نہیں ملتی
سہارا تو فقط اپنے سانسوں کا ہے
لیکن دل کو تو ایسی امید نہیں ملتی
سب چہرے فرقت کے نقاب میں ہیں
کہاں پھر ڈھونڈوں کوئی دید نہیں ملتی
میرے گھر کی تو دیواریں بھی نہیں ہیں
پھر منزلوں کو کیوں کُرید نہیں ملتی
آؤ تو موت کی سحر کو چلیں سنتوشؔ
یہاں جینے کی بھی کوئی ریت نہیں ملتی