وقت کے ہاتھ سے گزرے ہوئے لمحوں کی طرح
بھول جاؤ گے مجھے تم بھی تو لوگوں کی طرح
راہ میں ہر کسی پتھر کو نہ ٹھوکر پہ رکھو
کچھ پڑے سنگ بھی ہوتے ہیں نگینوں کی طرح
جسم ہلکان ہو زخموں سے تو ایسا بھی نہیں
خون بہہ سکتا ہے آنکھوں سے بھی اشکوں کی طرح
بوجھ پر بوجھ اُٹھائے ہوئے آ نکلے ہیں
کہیں بے سمت بھٹکتے ہوئے اونٹوں کی طرح
عمر گزری ہے کسی دھوپ کی حدت میں عقیلؔ
دشت کی ریت پہ جلتے ہوئے پودوں کی طرح