وقت ہے آخری، سانس ہے آخری
زندگی کی ہے شام آخری آخری
سنگِدل آ بھی جا اب خُدا کے لیے
لب پہ ہے تیرا نام آخری آخری
کوئی کرتا ہے مُلکِ عدم کا سفر
اُن سے کہنا تمھیں ڈُھونڈتی ہے نظر
نامہ بر تُو بھی جا اب خُدا کے لئے
دے دے اُن کو پیام آخری آخری
توبہ کرتا ہوں کل سے پیوں گا نہیں
مے کشی کے سہارے جیوں گا نہیں
میری توبہ سے پہلے، مِرے ساقیا!
دے دے تھوڑا سا جام آخری آخری
میرا پینا پِلانا سَبھی ختم کر
اِک نیا جام دے، اِک نئی رسم کر
پینے والوں کی فہرست میں ، ساقیا
لکھ بھی دے میرا نام آخری آخری
مجھ کو یاروں نے نہلا کے کفنا دِیا
دو گھڑی بھی نہ بیتی، کہ دفنا دِیا
کون کرتا ہے غم ، بس نکلتے ہی دَم
کر دِیا اِنتظام آخری آخری
میری میّت کو دُولھا بنایا گیا
اور گورِ غریباں میں لایا گیا
منہ سے رسمِ کفن کو ہٹایا گیا
دیکھ لیں خاص و عام آخری آخری
عِشق ہی ابتدا ، عِشق ہی اِنتہا
عِشق میں کھوگئے ، ہم تِرے ہوگئے
عِشق نے کرلیا فیصلہ آخری
عِشق میرا امام آخری آخری
جیتے جی قدر میری کسی نے نہ کی
زندگی بھی مِری بے وفا ہوگئی
دُنیا والو! مُبارک ہو دُنیا تمھیں
کر چلے ہم سلام آخری آخری