وہ جس نے سارے خواب تیرے زندہ کر دیے
اپنے جنوں کی آب سے تابندہ کر دیے
خود بجھ کے تیرے راستے رخشندہ کر دیے
چھپ کر جو بیٹھنا ہو کبھی اپنے آپ سے
تو سوچنا اُسے
وہ اجنبی سا آشنا کس راہ گم ہوا
ایسا گیا کہ لوٹ کر آیا نہ پھر کبھی
اب گرد سے اٹی ہوئی راہوں میں کچھ نہیں
وہ نقشِ پا بھی وقت نے شرمندہ کر دیے
پھر شاخِ دل پہ پھول جو اک اجنبی لگے
مت دیکھنا اُسے
مت سوچنا اُسے
کس کو خبر کہ راز کوئی بے طرح کھلے