وہ اجنبی کیونکر شناسا لگتا ہے
اِس دنیا سے ماورا سا لگتا ہے
جب کبھی آئینہ دیکھتا ہوں
اپنا چہرا ہی بے وفا سا لگتا ہے
زندگی کی طرح مقدر میرا
نجانے کیوں اُلجھاسا لگتا ہے
مجھ کو تو خود سے گِےل ہیں ہی
تُو بھی مجھ سے خفا سا لگتا ہے
میرے ہم نشیں تیرے بغیر
دل دھڑکنا بھی سزا سا لگتا ہے
یہ شخص جو تنہا ہے سرِ محفل
عجب نہیں کہ رضا سا لگتا ہے
دیکھنے میں اشک ہے ایک
جھیلنے میں دریا سا لگتاہے
مجھے دیکھ کر پستی میں پڑا، وہ
حیرت ہے ،حیرت زدہ سا لگتا ہے
رہتا ہے اس لیے وہ دور شائد
قریب آنا اُسے بُرا سا لگتا ہے
سرِ راہ جو راکھ دیکھی اُس نے
کہنے لگا کوئی آشیانہ سا لگتا ہے
سانسوںمیں تسلسل نہیں پہلے سا
زندگی کا سفر باقی زرا سا لگتا ہے
آج پھر تھاما ہے ہاتھ اُس نے
آج پھر دے گا دلاسا لگتا ہے