اپنوں کے ہاتھوں روکی گئی سانسیں بھی انکی
گھوڑوں کے نیچے کچلی گئیں لاشیں بھی انکی
آئے کئی نپولین و سیزر و قیصر
گزرے ہیں کئی پورس و دارا و سکندر
قاسم کئی معتوب ہوئے اہل جفا کے
محمود کئی گزرے سومنات گرا کے
غداروں نے ڈبویا ہے اہل جنون کو
اپنے ہی بیچ کھاتے ہیں ٹیپو کے خون کو
رنگ و نسل کے سلسلے اور خون کی باتیں
تہذیب نے عطا کی ہیں یہ عجب سوغاتیں
شور معاشیات کبھی اقتصادیات
چہرے نئے سجا کے آئی ہیں فرعونیات
سود و زیاں کے پر فریب رنگوں میں ڈھل کے
غارت گران شہر آئے بھیس بدل کے
شان و حشم ۔ جلال و فخر استعمار پر
انسان پھر رہا ہے یہ کس خارزار پر
پنہاں ہیں ناگ دلنشیں رنگیں قباؤں میں
شیطان چھپا بیٹھا ہے تازہ خداؤں میں
مزدور کہاں ہے تیرا دہقان کہاں ہے
پروردگار وہ میری پہچان کہاں ہے
وہ روح کہاں ہے میرا وجدان کہاں ہے
جو ڈھونڈتا ہے دل میرا وہ شان کہاں ہے
آتے ہیں نظر مجھ کو بھی یہ مٹی کے پتلے
جو تیرا خلیفہ تھا وہ انسان کہاں ہے