وہ ایسے ہجر میں رو رو دہائی دیتی ہے
خرد جنون کے صدقے دکھائی دیتی ہے
گزر گیا ہے زمانہ مگر تعجب ہے
صدا وہیں ہے جو گزرو سنائی دیتی ہے
خیال و خواب پہ پہرے بٹھا نہیں سکتا
کہ میری سوچ ہی تجھ تک رسائی دیتی ہے
قدم رکیں نہ کبھی مشکلیں تو آتی ہیں
لگن ہو سچی تو منزل سجھائی دیتی ہے
بری نہیں ہے، وہ لگتی ہے، پر بری اظہر
یہ موت حق ہے، الم سے رہائی دیتی ہے