جو شام و سحر وفا کے نگر میں رہتا ہے
وہ میرا پیار ہے قلب و جگر میں رہتا ہے
وہ ایک شخخص جو مجھ سے ملا نہیں برسوں
خدا گواہ ہے میری نظر میں رہتا ہے
وہ جس کی ایک ہی خواہش پہ زندگی دے دی
اسی کا رنگ مری چشم تر میں رہتا ہے
جو میرے اشکوں کے دریا سے آشنا ہی نہیں
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
وہ میری سوچ کے آنگن کو چھاؤں دے کیسے
غم حیات کا سایہ شجر میں رہتا ہے
میں کیسے چاند کو اپنا بناؤں گی وشمہ
مرے نصیب کا تارا سفر میں رہتا ہے