وہ بن کے خزاں ہم کو ڈستے گئے
ہم درختوں کی طرح اجڑتے گئے
نہ وہ سبز جہاں تھا نہ دشت جہاں
پھر کیوں آنکھوں کے ساون برستے گئے
بےوفائی کا طعنہ دیا اس نے جب
خوں کے قطرے بھی آنکھوں کےرستے گئے
زمیں میرے ہی دل کی خالی تھی کیا
جو درد اس میں زمانے کے بستے گئے
دشمن سارا جہاں اب ہمارا ہوا
عشق تیرے اشارے جو چلتے گئے
طلوع چہرے پہ جھریاں بڑھاپےکی اب
رنگ جتنے تھے جوانی کے ڈھلتے گئے
وقت مشکل کیا اک آن پڑا ہے رضی
یاروں کے یارانے بدلتے گئے