ماں کی گود اور باپ کے کندھے
نہ شادی کی فکر نہ مستقبل کے سپنے
وہ سکول کے دوست وہ کپڑے گندھے
وہ گھومنا پھرنا اور تفریح کرنا
وہ ہر عید میں کہنا ہمارے نئے کپڑے
لیکن مسعود
اب کل کی فکر اور اُدھورے ہیں سپنے
مُڑ کے دیکھو تو بہت دُور ہیں اپنے
منزلوں کو ڈھونڈتے ہوئے کہیں کھو گئے ہم
اور کتنی جلدی بڑے ہو گئے ہم