وہ تو جھونکا ہوا کا تھا آ کے گُزر گیا
کِدھر سے آیا تھا پھر نجانے کدھر گیا
احساسِ لمس باقی ہے میری سانسوں میں
وہ خوشبو کو میرے آنگن میں دھر گیا
کیوں ریت کے زرّوں میں تلاش کرتےہو
وہ تو اک قطرہ تھا ، سمندر میں اُتر گیا
جب سے کرچیاں سمیٹتا پھرتا ہوں میں
دل کے آئینے پہ جب سے تیرا پتھر گیا
تم نے پھر زاد ِ راہ باندہ رکھا ہے رضا
یہ تیور بتاتے ہیں کہ تیرا جی بھر گیا