خموش رات کے آنگن میں اک اداسی ہے
تپش ہے دل میں مرے ،روح میری پیاسی ہے
گزر گیا جو زمانہ وہ یاد آتا ہے
محبتوں کا فسانہ مجھے رلاتا ہے
وہی ہے حسن ترا آج بھی خیالوں میں
میں بھول پایا نہیں تجھ کو اتنے سالوں میں
بجھی امنگوں کی جلتی ہے آگ سینے میں
بھرا ہے زہر مری زندگی میں ، جینے میں
اگرچہ میں نے بہت چاہا بھول جاؤں تجھے
دکھائی دے نہ مجھے ، میں نظر نہ آؤں تجھے
مگر میں تیرے خیالوں سے جاں چھڑا نہ سکا
جو چاہا بھی تو کبھی کھل کے مسکرا نہ سکا
وہ تیرا چاندنی راتوں میں میرے پاس آنا
نظر اٹھا کے جھکانا ، وہ تیرا شرمانا
بھلاؤں کیسے بتا ساتھ گزرے لمحوں کو
تری ہنسی کو، تری مہکی مہکی سانسوں کو
مرے لیے تو بہت بے قرار رہتی تھی
“ہوں تیری روح کی ساتھی“ یہ مجھ سے کہتی تھی
“تری ہی تھی، ہوں تری، میں رہوں گی بس تیری “
وفا ہوئے نہ یہ وعدے ، نہ ہو سکی میری
حنا کے رنگ ،بدن کے گلاب میرے نہ تھے
وہ تیرے حسن کے سب ماہتاب میرے نہ تھے
تو مل سکی نہ مجھے زندگی کی راہوں میں
میں یاد آج بھی کرتا ہوں سرد آہوں میں
تری جدائی کا اب زہر پی رہا ہوں میں
یہ زندگی تو نہیں پھر بھی جی رہا ہوں میں
مری ویران سی دنیا کو آکے دیکھ ذرا
کبھی تو آکے تسلی دے، حال پوچھ مرا
مگر تو چاہ کے بھی مجھ سے مل نہیں سکتی
کلی کسی کی مرے گھر میں کھل نہیں سکتی
سماج کی یہ دیواریں گرا نہ پائے گی
پابندیاں ہیں کچھ ایسی ہٹا نہ پائے گی
جیا ہوں تیرے بنا اب بھی زندہ رہ لوں گا
تری جدائی کا کچھ اور رنج سہہ لوں گا
ترے سہاگ پہ غم کی گھٹا نہ چھائے کبھی
دعا ہے تیرے چمن میں خزاں نہ آئے کبھی