وہ میری آنکھوں کے خوابوں کو چرا سکتا ہے
وہ تو جب چاہے جبھی آگ لگا سکتا ہے
میں نے جو خونِ جگر سے نقش ابھارے تھے کبھی
ایک جنبش سے سبھی نقش مٹا سکتا ہے
ایک لفظ کہنے کی مجھ کو تو اجازت بھی نہیں
وہ جتنے چاہے ، مجھ پہ الزام لگا سکتا ہے
میں کہ محروم ہوں اِک پھول کے لے لینے سے
وہ جب چاہے ، سارے گلشن کو جلا سکتا ہے
اُس کو آتا ہے ہنر ایسا کہ بس کیا کہیئے
پگھلے ہوئے موم کو پتھر بھی بنا سکتا ہے
اس قدر خوب ہے اس کی یہ سیاست کہ ہر دم
خود کو مظلوم سے مظلوم بتا سکتا ہے
ایسا معصوم شکل ابلیس صفت ہے لوگو
وہ جب چاہے تمہیں رستے سے ہٹا سکتا ہے