وہ جو سامنے ہوتا ہے وہ ویسا نہیں ہوتا
ہرکھنے پر ہر سکہ یہاں کھرا نہیں ہوتا
رپتا ہے یہاں ہر کوئی اک سراب کی ماند
ریگستاں ہوتا ہے وہ پر سمندر نہیں ہوتا
چھائی ہیں کالی گھٹائیں فضائوں میں
چھٹتا نہیں اندھیرا اب اجالا نہیں ہوتا
اس ظالم سماج کے ہیں کرینے عجب
خوشحالی کا دور یہاں دورا نہیں ہوتا
چلو جمیل کہیں دور جا بسو اب
سادگی میں یہاں تیرا گزارہ نہیں ہوتا