وہ جو چاند تاروں کی ماند پر سر ِ شام راہ سے بچھڑ گئیں
وہ رتیں تھیں تیرے شباب کی کہیں موسموں میں ٹھہر گئیں
بڑی مختصر تھیں وہ ساعتیں ترے قرب میں تری چاہ میں
تھیں وہ شامیں پیڑوں کی اوٹ تک ہٹی دھوپ پل میں اُتر گئیں
دل ِ بے خبر یہ امید کیوں نہ تراش لمحوں سے خواب پھر
تمہیں جن رتوں کی تلاش ہے وہ رتیں تو آ کے گزر گئیں
یہ کہا کہ رخ میں نقاب سے بڑی دل نشیں لگی آنکھ کیوں
یہ سنا کہ برسی ہیں بارشیں یہ ہوا کہ آنکھیں نکھر گئیں
ترے دم قدم سے آباد تھے یہ دیوار و در سبھی شہر کے
تُو گیا تو ساتھ میں رونقیں ترے مثل ِ گرد ِ سفر گئیں
مرا لفظ لفظ تری باس ہے ترا حُسن ہے تری یاد ہے
تری خوشبوئیں جو چلیں تو پھر بڑی دُُور عکس ِ ہنر گئیں
تھا عقیل کتنا طویل تر یہ جو ہجر ہے مگر اب کے برس
کہاں دن میں دھوپ کی وحشتیں کہاں اب وہ راتیں سُدھر گئیں