کبھی کسی راستے کا نشان خود سے بچھڑ گیا
اور آج کسی سپنے کا نشان ھم سے بکھر گیا
سنبھال سنبھال کے رکھا برسوں سے جو راز تھا
اسے یاد کر کے روئے، آنسوؤں میں بہہ گیا
بھلے اب وہ زمانہ نہیں چلنابھی اسکا ممکن نہیں
بس دل میں چھپا تھا ارمان ،زبان سے بھی نکل گیا
کہانیاں پیارومحبت کی کئی مختصر بھی ہیں
مگر اس پیار کا انجام تو بے لفظ ہی کٹ گیا
کبھی خوابوں میں بھولے تھے ھماپنا روز و شب
اب شب و روز میں اپنا وہ خواب گم گیا
کبھی حسرتوں کا ھم سے رشتہ عزیز تھا
اب ھم سے حسرتوں کا جنازہ نکل گیا
کبھی یاد میں پرانی کیہ رنگ کی تتلیاں تھیں
آج تتلیوں کے روپ کا وہ رنگ بدل گیا