وہ درد بھی پرائے تھے
جو سینے سے لگائے تھے
سکون قلب کو ہم نے بھی
سر سجدوں میں جھکائے تھے
غم خریدے کہاں ہم نے
یہ مہمان تو بن بلائے تھے
فقط تجھے دیکھنے کی چاہ میں
ہم شدت دھوپ میں نہائے تھے
قصے جو سرعام ہوئے بے وفائی کے
قصے وہ محض سنے سنائے تھے
چمن میں ہر سو ویرانی ہے
گل جس کے ہم نے کھلائے تھے
فقط کر کے تجھ پہ یقیں
باغ امید کےہم نے لگائے تھے
کیسے لکھ دوں تجھ کو بے وفا
ہم بھی کہاں دھلے دھلائے تھے