وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی

Poet: رخشندہ نوید By: Tooba, Lahore

وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی
انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی

وہ ان کو جانتے ہیں اور ان کے حال دل کو
سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی

ہمارے درمیاں یہ دکھ ہی قدر مشترک ہیں
سو ہم کو اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی

بدن کو روح سے محروم کر ڈالا گیا ہے
بسر اس طور ہی اب زندگی کرنی پڑے گی

بلایا جائے کیسے اس شناسائے سخن کو
بپا اک بزم شعر و شاعری کرنی پڑے گی

بہت مدت سے ہنسنا بھول کر بیٹھی ہوئی ہے
تمہیں رخشندہؔ شاید گدگدی کرنی پڑے گی

Rate it:
Views: 503
30 Jun, 2021