رات کی گہری سیاہی میں
تنہائی کی انگہرائی میں
چاند کی پرچھائی میں
تاروں کی ٹمٹماہٹ میں
وہ روٹھ گیا اس ادا سے
بہت دور نکل گیا اس ادا سے
بادل کی گھن گرج میں
بجلی کی چمک دھمک میں
بارش کے شور و گل میں
آندھی کے بدلتے رخ میں
وہ روٹھ گیا اس ادا سے
بہت دور نکل گیا اس ادا سے
روتے دل کی پکاروں میں
خلش کے انگاروں میں
سانسوں کی ڈوروں میں
ہچکی کے شوروں میں
وہ روٹھ گیا اس ادا سے
بہت دور نکل گیا اس ادا سے
زندگی کے نشیب و فراز می
آزمائش کے کٹھن امتحان میں
بگڑے حالات کے طوفاں میں
سکوں کی تلاش میں
وہ روٹھ گیا اس ادا سے
بہت دور نکل گیا اس ادا سے
یادوں کے خوبصورت پلوں میں
یاد کیا ہر اک پل پل میں
آوازیں میری کھو گیں ان پلوں میں
جواب کوئی نہ آیا ان پلوں میں
وہ روٹھ گیا اس ادا سے
بہت دور نکل گیا اس ادا سے