وہ ستم کے تیر چلاتا رہا
چیختا چلاتا رہا
سچ بولنے کی اسکو سزا ملتی رہی
سچائی کا تماشا یہ معاشرہ لگاتا رہا
زبان کو تالا لگانے کے لیے دھمکاتا رہا
ذلّت کا جنازہ دھوم دھام سے نکلتا رہا
چیخوں کو زور بازو سے دباتا رہا
چہرہ وہ اپنا چھپا تا رہا
دوپٹے کو اس کے گرد میں لہراتا رہا
دل کو اپنے وہ اس کے زخموں سے لباھتا رہا
درندگی کی حوس میں بد ہوش وہ رہا
درد حوس کو وہ اسکے جھٹلاتا رہا
دعا کنول کی اس رب کریم سے یہی ہے
دنیا و آخرت میں اسکو رسوائی ملتی رہے
وہ ستم کے تیر چلاتا رہا
چیختا چلاتا رہا