وہ سہارا اگر دیتی تو سنبھل جاتا
میرا مرنا کچھ دیر ٹل جاتا
میں سورج تھا چھین لی روشنی اس نے
وگرنہ شام سے پہلے تو نہیں ڈھل جاتا
جانا تھا مجھے چھوڑ کے فانی دنیا
مت رو کہ آج نہیں تو کل جاتا
پاؤں میں ہے بیڑی انا کی وگرنہ
وہ کہتی اگر تو سر کے بل جاتا
اپنے جسم سے دور کیوں رکھا مجھے
تو آگ نہیں کہ میں جل جاتا
میرا گلی میں جانا ان کو نا گوار نا گزرے
سو جب بھی جاتا حلیہ بدل جاتا
دفن ہونا تھا یہاں مجھ کو ہادی
کیسے ترے کوچے سے نکل جاتا