یہ کیسی چال میں اور بانکپن میں لوٹ آئے
تمام زخمی عجب خستہ تن میں لوٹ آئَے
جو صبح "علم گھر" اطفال ِ خوش لباس گئے
وہ شام ڈھلتے ہی سارے کفن میں لوٹ آئے
فرات ِعلم کو دیکھا حصار ِ حُرمل میں
سو پیاس اپنی چھپا کر دَہَن میں لوٹ آئَے
دعائیں کرتی رہیں واں ، کھڑی کئی مائیں
کہ روح بچوں کی شاید بَدَن میں لوٹ آئَے
حِرا کی روشنی تو لامکاں سے ہو آئی
جو شب پسند تھے طرزِ کُہَن میں لوٹ آئے
ہر ایک لاش یہ بچے کی کہہ رہی تھی وطن
"عدم" کی راہ سے ہم تو "عدن" میں لوٹ آئے
دعا لبوں پہ ہراک ہموطن کے ہے مفتی
بہار روٹھی ہوئی پھر چمن میں لوٹ آئے