دیکھ کر رنگ دنیا کے یوں بدل گیا
پروانہ کرنوں کی تپش سے ہی جل گیا
کہاں ہے وہ شخص رونقِ محفل آج
چھوڑکر بھری بزم جانے کہاں نکل گیا
تھی ہر ٹھوکر ترے بھلے کے واسطے
بندہ ہے وہ جو گرا اور سنبھل گیا
چمکا ہر دن زندگی کا درخشاں
وقتِ غروب آخر سورج بھی ڈھل گیا
سج سنور کر خوشبو سے معطر یہ وجود
وہ جسد خاکی آج مٹی میں ہی مل گیا