بسا بسایا دل ویران کر گیا
وہ شخص میرا شہر سنسان کر گیا
تھی کس قدر مجھے اسکی چاہت
میرے دل کو کس قدر پریشان کر گیا
نا پوچھتا ہے میں بات کیوں نہیں کرتی نا بات کرتا ہے
میری محبت کو بس اک وہم و گمان کر گیا
چاند ستاروں کی حسین راتوں میں تنہاہ کر دیا
اماوس کی رات قربت دے کر حیران کر گیا
گواہ میرے سچے جذبوں کا بس خدا ہے
اپنی بات سے مکر کر مجھے بے ایمان کر گیا
شکوہ بھی ہے تجھ سے تیرے ملنے کی فریاد بھی
کتنے پیارے اس بے نام چاہت پر احسان کر گیا
کسی اور کی نگاہوں میں تھا وہ قبل سے
میری محبت کو بس لمحوں کا مہمان کر گیا
وقت کے دامن میں جھوٹے دعوں کی آس ہے
رسوائی میری رگوں میں سرطان کر گیا