وہ صنم جس سے مجھے وفا بہت ہے
دور رہ کر بھی اس کی چاہ بہت ہے
آنکھیں ملتی ہیں شرم سے جھک جاتیں ہیں پلکیں
میرے ہمدم کی نظروں میں حیاء بہت ہے
دیکھتا رہتا ہوں ہر وقت اس کی تصویر کو
کیا کروں اس کی صورت میں نشہ بہت ہے
سوچا نہ تھا کبھی خود کے بارے میں مگر
اس کے لیے میرے دل نے کی دعا بہت ہے
کاش کہہ سکوں کبھی اس شمع سے
یہ پروانہ تیرے پیار میں جلا بہت ہے
نعمت سمجھوں گا اگر وہ آجائے زندگی میں
ورنہ توقیر کے لیے فقط خدا بہت ہے