مجھے جس نے اپنا بنا تھا وہ قرار خود نہ نبھا سکا
بہ حدیقہ ہائے موانست نہ وفا کی پینگ بڑھا سکا
ہوئےں بے جا رنجشیں کیوں اسے کیا صید تیر جفا مجھے
بڑی دل نے پائےں اذیتیں نہ جفا سے اس کی بچا سکا
بڑی تند خوئی سے شوخ نے مجھے سوز و درد و الم دیا
نہ ہی کسی کے کام میں آ سکا نہ ہی اپنی بگڑی بنا سکا
وہ کما ن ابرو کھنچی کھنچی بہ مفارقت وہ گھٹن گھڑی
نہ میں کوئی عذر ہی کر سکا نہ ہی عرض اپنی سنا سکا
وہ فریب و مکر تھا بے گماں جو محبت اس سے ہوئی عیاں
بکمال خوئے وفا گری نہ میں اس کے دل میں سما سکا
اسے خواہ کوئی وفا کہے ےا صلاح ترک کہے مجھے
کہ میں ا س غر ور شعار کو نہ جدائی میں بھی بھلا سکا
جو دیا حسین اُمید کا تھا جلایا دل کی منڈیر پر
بڑی تےز آندھی سے بجھ گےا جسے پھر کبھی نہ جلا سکا
ہوئی ایسی تیرگی بخت کو کسی زُلف برہم مزاج سے
نہ ہی عزم کا ہوا تکما نہ ہی صحیح راستہ پا سکا
ہوئےں تشنہ کامی کی تلخیاں ہوا راز مخفی مرا عیاں
سر بزم کیوں ہی نہ شرم ہو کہ نہ حال اپنا چھپا سکاییااابببببب