وہ ماں کتنی لاچار تھی
Poet: sarwat anmol By: sarwat anmol, sargodhaوہ ماں کتنی لاچار تھی
جسکا معصوم بچہ
ٹھٹھرتی سردی میں
ننگے پاؤں سڑک پر
بنا کوئ گرم شال اوڑھے
برستی اوس میں
ٹھنڈ سے کانپ رہا تھا
وہ ماں اس پل کتنی مجبور تھی
جو کسی اور کے دسترخوان کو سجانے کیلۓ
مختلیف پکوان بناتی
اور اپنے گھر میں خالی پانی سے بھری
دیگیچی چولہے پر چڑھاۓ
اپنے معصوم بچوں کے چہروں پر
آس وامید کی عجیب کیفیت دیکھ رہی تھی
کسی ماں کو اپنے بچے سے لاڈ کرتا دیکھکر
وہ ماں اپنے بچوں کا بچپن ڈھونڈ رہی تھی
نجانے وہ بچپن کا چلا گیا
یہ پھر
کبھی آیا ہی نیہں
وہ ماں بہت دل سوزی کے ساتھ
سوچ رہی تھی
غربت کتنی اذیت ناک ہوتی ھے
جو سب کچھ چھین لیتی ھے
ماں کی ممتا
باپ کی شفقت
اور شاید معصوم سا بچپن بھی
یاد رہتا تو صرف
بھوک کو مٹانا
صرف بھوک کو مٹانا
کبھی سوچوں تو معلوم ہوں
کتنی اذیت ناک ہوتی ھے غربت
ثروت انمول
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






