وہ میری قربت چاہتا تو کیسے چاہتا ؟
کہ اتنی غُربت چاہتا تو کیسے چاہتا؟
وہ جُڑا دنیائے حسن سے' لاجواب ہے
مجھ جیسی قسمت چاہتا تو کیسے چاہتا ؟
کیونکر لکھ لیتا وہ مجھ بدنام کو درِداستاں
ماضی پہ ندامت چاہتا تو کیسے چاہتا ؟
مختصر سی محبت ہے سفر طول زندگی کا
زندگی سے شکایت چاہتا تو کیسے چاہتا ؟
اُس کے زخموں سے تو درخشاں میرا بدن
میرے لیے جنت چاہتا تو کیسے چاہتا ؟
دل ریش بھی تو کم نہیں ،میری اُمیدیں
اور ایسی قیامت چاہتا تو کیسے چاہتا ؟
گرفتار میری دُنیا میں آ کے ہو جاتا مانو
ظلم کی عنایت چاہتا تو کیسے چاہتا ؟
اور محبت تو آخر محبت تھی انمول
کسی بھی صورت چاہتا تو کیسے چاہتا ؟