بڑی جاں لیوا ہے یہ پہلو تہی اُسکی
اب سہی نہیں جاتی ہےبےرُخی اُسکی
وہ اُداس چہروں کو ہنسی دیتا تھا
ستاروں سےمزّین تھی زندگی اُسکی
بادِ نَو بہار کا جھونکا گزر گیا
بازگشت فضا میں رقصاں رہی اُسکی
گردشِ حالات میں ایسےبھی دن آئے
میری سنی اُسنے نہ میں نےسنی اُسکی
وہ لذتِ پرواز سے آشنا ایسا ہوا
نِگاہ نہ پھر مجھ پہ رُکی اُسکی
حسرت نہیں کوئی جو پوری نہ ہوئی
زندگی میں بس اِک ہے تو کمی اُسکی
چہرے پہ تبسم کا تاثر تو تھا مگر
کُچھ اور کہہ رہی تھی کپکپی اُسکی
دل ِ ناتواں نے ہر جتن کر دیکھا
پھربھی نہ پا سکے خوشی اُسکی
وہ جس حال میں رکھےگا جی لینگے
دل کودرکارمحض ہےمرضی اُسکی
کھلی آنکھ میں بھی خواب ہیں اُسکے
وہ نہ آئے رضا چلو یاد ہی سہی اُسکی