وہ پوچھتا ہے درد کا سبب کیاہے
زندگی میں بچا اور اب کیا ہے
یہی تو ہرگھڑی ساتھ رہتا ہے
تیرا ہی تحفہ ہے، تعجب کیا ہے
رخِ یار پر یہ بے رُخی کیسی
تو میراہے ،تو یہ سب کیا ہے
گُزری ہےقیامت دل پہ ہرلمحہ
تو بھی گُزر جائے تو عجب کیا ہے
زندگی کانٹوں کی سیج نہیں تو
سلسلہ ء غم ، روز و شب کیا ہے
سرِفہرست میری ذات سرِمقتل
خدا ہی جانے ،یہ سب کیا ہے
اب تو سہنے کی رضا عادت ہے
تو بھی آزما لے، غضب کیا ہے