وہ چاند تھا بادلوں میں گم تھا
وہ عکس تھا پانیوں میں گم تھا
دستک کی صدا تو آ رہی تھی
میں اپنے ہی واہموں میں گم تھا
چہرے پہ محبتیں سجی تھیں
دل اپنی ہی نفرتوں میں گم تھا
مٹی میں نمی کہاں سے آتی
پانی تو سمندروں میں گم تھا
دربار میں کرسیاں سجی تھیں
ہر شخص عقیدتوں میں گم تھا
اس عہد کا کیا شمار کیجے
جو عہد کئی رتوں میں گم تھا
انصاف کی بھیک کسے ملتی
قانون شہادتوں میں گم تھا
شیریں سے سجا تھا قصر خسرو
فرہاد محبتوں میں گم تھا
منزل کا سراغ دینے والا
بے نام مسافتوں میں گم تھا