وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا
چڑھتے ہی دھوپ شہر کے کھل جائیں گے کواڑ
جسموں کا رہ گزار روانی میں آئے گا
آئینہ ہاتھ میں ہے تو سورج پہ عکس ڈال
کچھ لطف بھی سراغ رسائی میں آئے گا
رخت سفر بھی ہوگا مرے ساتھ شہر میں
صحرا بھی شوق نقل مکانی میں آئے گا
پھر آئے گا وہ مجھ سے بچھڑنے کے واسطے
بچپن کا دور پھر سے جوانی میں آئے گا
کب تک لہو کے حبس سے گرمائے گا بدن
کب تک ابال آگ سے پانی میں آئے گا
صورت تو بھول بیٹھا ہوں آواز یاد ہے
اک عمر اور ذہن گرانی میں آئے گا
ساجدؔ تو اپنے نام کا کتبہ اٹھائے پھر
یہ لفظ کب لباس معانی میں آئے گا