وہ کبھی میرا ہمسفر تھا

Poet: رعنا کنول By: Rana Kanwal, Islamabad

وہ کبھی میرا ہمسفر تھا
ہم نوا تھا ہم خیال تھا
مگر یہ کیا میرے غموں میں اسی کا کمال تھا

وہ ہنستا روتا چھوڑ کر ایسا گیا تھا
پلٹ پوچھا ہی نہیں حال میرا کیا تھا
حال بے حال ایسا کر گیا تھا
خوشی کو ترسو دعا ایسی دے گیا تھا
جیت اپنی کا جشن وہ مانا رہا تھا
ایک عجیب خمار اسکی نظر میں نظر آ رہا تھا
انا کی چوٹ کا درد بے انتہاء تھا
اس درد کے شور کا مزہ وہ اٹھا رہا تھا
منزل اپنی کی راہیں وہ بدل چکا تھا
ان راہوں کی منزل کا پتہ صرف اسے پتا تھا
میری بے بسی کے عالم میں اسکا اندازے ستم بہت نرالا تھا
چل دیا کسی اور کے سنگ جس سے کیا وفا کا وعدہ تھا

وہ کبھی میرا ہمسفر تھا
ہم نوا تھا ہم خیال تھا
مگر یہ کیا کنول تیرے غموں میں اسی کا کمال تھا
 

Rate it:
Views: 633
22 Apr, 2019