وہ کسی اور سمت جاتے رہے
ہم فقط اپنا دل جلاتے رہے
اس کی انگڑائی کیا قیامت تھی
ہم نئے زاویے بناتے رہے
ہر طرف رات کا نظارہ تھا
دل بنا کر دیا جلاتے رہے
اس کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ ہم
پتھروں کو غزل سناتے رہے
ہم فقط زاہدان خشک نہیں
بات بگڑی ہوئی بناتے رہے
اس کی آنکھیں تھیں عام سی آنکھیں
ہم سخن یوں ہی ڈگمگاتے رہے
دنیا روتی رہی مگر ہم لوگ
قہقہوں میں کسک چھپاتے رہے